ہفتہ وار درس سے اقتباس
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِذَا فَاتَکَ الحَیَائُ فَاصنَع مَاشِئتَ جب تو بے حیا ہو جائے پھر تو جو چاہے سو کر، احساس کی موت اسے کہتے ہیں
حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ جیسے محمد بن سماک رحمتہ اللہ علیہ جیسے اور کتنے درویش ایسے ہیں جن میں کوئی ڈاکو تھا، کوئی شرابی تھا ۔کوئی کیا تھا ‘کوئی کیا تھا، اپنے اپنے زمانے کے مانے ہوئے تھے ۔اللہ جل شانہ نے ہدایت عطافرمائی طلب کارخ بدلا،انکی نسلوں میں بھی ہدایت کے چشمے جاری ہوئے۔ ہمارا جو بھی عمل ہے انفرادی عمل نہیں ہے ۔سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی کا جوبھی عمل ہے وہ انفرادی نہیں‘ نہ نیکی انفرادی ہے‘ نہ گناہ انفرادی ہے۔میں انہیں مجرم نہ کہوں کہ پتہ نہیں اللہ کے ہاں اس کا کیا مقام ہے۔بقول اس شخص کے کہ میں بہت بڑا مجرم ہوں میںنے گناہ کئے ہیں۔ قبروآخرت کی بات چلی تو مجھ سے کہنے لگا کہ یہ بات سچ ہے کہ آدمی کا کوئی عمل انفرادی نہیں اس عمل کا اثر اس کی نسلوں پر پڑتا ہے کہنے لگا میرا تجربہ یہ ہے کہ جن کی نسلیں حرام سے پلتی ہیں ان کے اند ر میں نے بے حیائی بہت دیکھی ہے۔ایک اللہ والے کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا میں فلاں ملک میں رہا‘ میرے پاس بہت مال واسباب تھا ‘چیزیں تھیں وہ ساری کی ساری چیزیں مجھ سے لٹ گئی ہیں۔ وہ بزرگ فرمانے لگے شکر کر‘ اگر تیرا مال مشکوک تھا تو اللہ تعالیٰ نے تیری آخرت بچالی اور اگر مشکوک نہیں تھا تو قیامت کے دن حساب و کتاب کا سلسلہ تھوڑا ہوجائے گا۔ ہمارے ایک ایک عمل ،ایک ایک چیز، ایک ایک لقمے کا حساب ہوگا۔ امیر حبیب اللہ والی افغانستان تھے۔میاں بیوی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔اطلاع ملی کہ کفار کے خلاف بیٹے کو جہاد میں بھیجا تھا اس کو پسپائی ہوئی اور وہ آگے آگے ہے اور دشمن اس کے تعاقب میں ہیں بیوی نے سنا تو کہنے لگی ایسا ممکن نہیں، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ امیر نے بیوی سے کہا کیا تجھے کشف ہوا ہے؟ اُس دور میں مواصلات کا نظام اور یہ موبائل ٹےلےفون کہاں تھے؟ چند دنوں کے بعد نئی اطلاعات ملیں کہ ایسا نہیں تھا بلکہ اس کے بر عکس تھا وہ دشمن کے پیچھے ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے فتح دی ہے۔امیرحبیب اللہ صاحب بہت حیران ہوئے۔ بیوی سے پوچھا تو نے کس بنیاد پر یہ بات کہی تھی؟ بیوی کہنے لگی جب سے یہ میرے پیٹ میں آیا تھا میں نے کوئی حرام کام نہیں کیا ، حرام لقمہ نہیں کھایا ، اللہ کی نافرمانی نہیں کی، کوئی نیک عمل نہیں چھوڑا ‘اللہ کے تعلق سے نہیں ہٹی اور جب سے یہ بچہ میری گود میں آیا، کبھی اس کو میں نے بے وضو دودھ نہیں پلایا۔کیسے ممکن ہے کہ ایسا جوان بزدل ہو جائے وہ اللہ کے راستے میں کٹ تو سکتا ہے پیٹھ نہیں پھیر سکتا۔ میرے دوستو! آپ کو اکثر اپنے مشاہدات بتاتا ہوں میرے خیال میں ان میں فائدہ زیاد ہ ہوتا ہے۔ بھئی میں عالم تو نہیں ہوں اصل تو یہ منبر اور محراب علماءکا حق ہے انہیں کو اچھا لگتا ہے اور میں تو بیٹھ کے کچھ دل کی داستانیں سناتا ہوں۔ زندگی چونکہ مشاہدات و تجربات کا مجموعہ ہے۔ کراچی جاتا ہوں تو ہر شخص ایک نئی داستان سناتا ہے مجھ سے ایک صاحب نے بیان کیا کہنے لگے کہ میں فلاں جگہ گیا تھا اس کے بعد سے میری کےفیت ٹھیک نہیں ہو رہی، دل بجھا بجھا، دیوار کو ٹکریں مارنے کو دل چاہتا ہے، اعمال میں کوئی توجہ نہیں، اللہ کی طرف کوئی دھیان نہیں، ذکر میں تسبےحا ت میں کوئی حلاوت ہی نہیں ہے، میں نے ان سے کہا کوئی سبب تلاش کر‘ بغیر سبب کے کچھ نہیں ہوا کرتا ۔ کوئی کبیرہ گناہ ہوا ہے‘ کوئی مشکوک کھانا کھا گیا ہے کچھ ہوا ہے اس کے بغیر یہ کےفیت نہیں ہوا کرتی کہنے لگے کچھ سمجھ نہیں آرہی میں نے کہا تحقیق کرو ہر چیز کی تحقیق ہوتی ہے۔ چند دن کے بعد ٹےلےفون آیا کہ جس گھر میں میں مہمان گیا تھا وہ گھر والے بجلی چوری کرتے تھے۔ میرے دوستو! آپ کا کوئی عمل انفرادی نہیں ہے ایک ایک گناہ انفرادی نہیں ہے اس کا اثر اُمت پر پڑ رہا ہے اس کا اثر تیری نسلوں پر پڑ رہا‘ اس کا اثر تیری آنے والی زندگی پر پڑھ رہا ہے۔ ایک ایک عمل‘ ایک ایک لفظ‘ ایک ایک کام ان کا اثر تیری نسلوں پر پڑ رہا اور یہ حقیقت عرض کر رہا ہوں میں بعض سجے ہوئے گھر دیکھتا ہوں جس گھر میں مٹی نہیں ہوتی اگر ننگے پاﺅں چلا جائے تو پاﺅں کو مٹی نہیں لگتی گھر کے افراد بھی سجے ہوئے گھر بھی سجا ہوا لیکن گھر کے ہر فر د کا دل ویران ہے‘ پریشان ہے ہم نے ظاہر کو سجایا‘ باطن کو نہیں سجایا‘ ظاہر کو سنوارا باطن کو نہیں سنوارا ۔بڑی حیرت انگیزاور قیمتی بات کہہ رہا ہوں اللہ کی قسم اٹھا کر کہہ رہا ہوں اس کے اندر ظلمت کے بھپکے ہیں‘ اس کے اندر غلاظتیں ہیں ۔حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس دل میں ایمان ہے اس ایمان کا ایک ذرہ اگر اس عالم میں نکالیں تو سارا عالم روشن ہو جائے‘ سورج چاند کی روشنی اس کے سامنے کچھ نہ ہو اس کی خوشبو ایسی ہوکہ لوگ مدہوش ہو جائیں اور جس دل میں ایمان نہیں ہے فرما یا اس کے ذرے کو نکالیں تو سارا عالم بد بو دار ہو جائے‘ لوگ مر جائیں‘ سورج اور چاند کی روشنی کے باوجود تاریکی اور اندھیرا چھا جائے جس سینے سے یہ ذرہ نکلا ہے اس سینے میں کتنا اندھیرا ہو گا۔ ارے اس سینے سے سب سے پہلے جو چیز جاتی ہے وہ حیا اور غیرت ساتھ جاتی ہے ایک اور چیز بھی جاتی ہے وہ حیا ءاور غیرت جانے کا احساس بھی ہے۔ جب احساس کی موت ہو جائے تو اس سلسلے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِذَا فَاتَکَ الحَیَائُ فَاصنَع مَاشِئتَ جب تو بے حیا ہو جائے پھر تو جو چاہے سو کر، احساس کی موت اسے کہتے ہیں۔ دائمی نزلے کی وجہ سے یا کسی مرض کی وجہ سے جس کا ناک بند ہو جائے خوشبو اور بدبو اس کے لئے برابر ہے اس کے اندر خوشبو اور بدبو کے احساس کی موت ہوئی ہے ۔بعض لوگ علاج کے لئے آتے ہیں ہمارے ذائقے کا احساس ختم ہو چکا ہے ،میٹھا ہے‘ کڑوا ہے‘ نمکین ہے ‘پھیکا ہے ‘بالکل محسوس نہیں ہوتا۔ بعض کہتے ہیں جی ہم کلر بلائینڈ ہیں رنگوں کی پہچان کے احساس کی موت ہو گئی ہے، ایمان کا احساس، اس کی موت ہو گئی ہے اور جب احساس کی موت ہو جائے تو پھر گناہ گناہ نہیں رہتا، پھر گناہ اور بے حیائی کو جو ایک سلجھا ہوا بہترین لفظ دیا جاتا ہے اس کا نام ہے فیشن۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں